اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون

اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون

دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ھو جائیں گے
جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون

وہ ہوس ھو یا وفا ھو بات محرومی کی ہے
لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون

ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا
رات تھی کس  کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون

آ فصیل شہر سے دیکھیں غنیم شہر کو
شہر جلتا ھو تو تجھ کو بام پر دیکھے گا کون
  
احمد فراز

اب کے بچھڑے توشاید کبھی خوابوں میں ملے

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
 
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

اب نہ وہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں

احمد فراز

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرے پیماں جاناں

یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احسان جاناں

دل یہ کہتا ہے کہ شاید ھو افسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

اول اول کی محبّت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستان جاناں

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگ جاں جاناں

مدّتوں سے یہ عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں

ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہی زنجیربہ پا لگتاہے
 شہر کا شہر ھوا داخل زنداں جاناں


اب تیرا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ھوا درد کا عنوان جاناں

ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
احمد فراز

پھر کوئی آیا دل زار ، نہیں کوئی نہیں

پھر کوئی آیا دل زار ، نہیں کوئی نہیں
رہرو ہو گا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
 لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک رہگزار
اجنبی خاک نے دھندھلا دئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ 
اپنے خوابیدہ کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
Listen Faiz Ahmed Faiz's پھر کوئی آیا دل زار ، نہیں کوئی نہیں

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
 دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

 بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا، اس پہ تیرا جمال بھی

 سب سے نظر بچا کہ وہ مجھ کو ایسے دیکھتا
 ایک دفعہ تو رک گئی، گردش ماہ و سال بھی

 دل تو چمک سکے گا کیا، پھر بھی تراش کے دیکھ لو
شیشہ گراں شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی

 اس کو نہ پا سکے تھے جب، دل کا عجیب حال تھا
 اب جو پلٹ کے دیکھیے ، بات تھی کچھ محال بھی

 میری طلب تھا ایک شخص ، وہ جو نہیں ملا تو پھر
 ہاتھ دعا سے یوں گرا ، بھول گیا سوال بھی

 شام کی نا سمجھ ہوا، پوچھ رہی ایک پتہ
 موج ہوائے کوئے یار کچھ تو میرا خیال بھی

 اس کے بازؤں میں اس کو ہی سوچتے رہے
 جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی

پروین شاکر