پھر کوئی آیا دل زار ، نہیں کوئی نہیں
رہرو ہو گا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک رہگزار
اجنبی خاک نے دھندھلا دئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے خوابیدہ کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
Listen Faiz Ahmed Faiz's پھر کوئی آیا دل زار ، نہیں کوئی نہیں
No comments:
Post a Comment