آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا

اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

تم سر رہ وفا دیکھتے رہ جاؤ گے
اور وہ بام رفاقت سے اتر جائے گا

زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز 
ظالم اب کے نہ روئے گا تو مر جائے گا 

احمد فراز 

ہو کسی ماں کی طرح نحل ثمر دار کا دکھ

ہو کسی ماں کی طرح نحل ثمر دار کا دکھ
خوشہ چیں کیسے سمجھ سکتے ہیں اشجار کا دکھ

کون چاہت سے تجھے دے گا تیرے فن پہ داد
کس نے محسوس کیا ہے کسی فنکار کا دکھ

تم کو فرصت ملے دنیا کے مشاغل سے اگر
کبھی سوچو کسی مفلس کسی نادار کا دکھ

میں نے پھر بصرہ و بغداد کو جلتے دیکھا
میں نہ بھولا تھا ابھی کابل و قندھار کا دکھ

کبھی سیلاب، کبھی موسم بے آب کا ڈر
ہم زمیں دار سمجھتے ہیں زمیں دار کا دکھ

احمد فراز

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آسان تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جاں سے جاتے جاتے

جشن مقتل ہی نہ برپا ھوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے

احمد فراز

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
یہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملاے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ،  ذرا فاصلے سے ملا کرو

ابھی رہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس کسی نے بھلا دیا، اسے بھولنے کی دعا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں، یہ محبتوں کی کہانیاں 
جو کہا نہیں  وہ سنا کرو ، جو سنا نہیں  وہ  کہا کرو

کبھی  حسن   پردہ  نشیں   بھی   ہو  ذرا عاشقانہ   لباس  میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں میرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمی شوق سے، بڑی دیر تک نہ تکا کرو

ڈاکٹر بشیر بدر

نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن ، کہ جہاں

نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کہ چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

بہت ہیں ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کیسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

مگر گزارنے والوں کے دن کزرتے ہیں
تیرے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں


بجھا جو روزن زندان تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر تیرے رخ پر بکھر گئی ہو گی


غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سایہ دیوار و در میں جیتے ہیں


یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے ، نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

اسی سبب سے فلک کا گلا نہیں کرتے
تیرے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل باہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

جو تجھ سے عہد و وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں 

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے

آئے  کچھ  ابر  کچھ  شراب آئے
 اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

بام  مینا  سے  ماہتاب اترے
دست ساقی  میں  آفتاب آئے

ہر رگ خون میں پھر چراغاں ہو
سامنے  وہ   پھر  بے  نقاب  آئے

عمر  کے  ہر  ورق  پر نظر
تری مہر و وفا کے باب آئے

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج  تم   یاد  بے  حساب  آئے

نہ  گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں  یوں  روز  انقلاب آئے

جل اٹھے بزم غیر کے در و بام
جب بھی ہم  خانماں خراب آئے

اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے

فیض تھی راہ  سر بہ سر منزل
ہم  جہاں  پہنچے  کامیاب  آئے