ہو کسی ماں کی طرح نحل ثمر دار کا دکھ
خوشہ چیں کیسے سمجھ سکتے ہیں اشجار کا دکھ
کون چاہت سے تجھے دے گا تیرے فن پہ داد
کس نے محسوس کیا ہے کسی فنکار کا دکھ
تم کو فرصت ملے دنیا کے مشاغل سے اگر
کبھی سوچو کسی مفلس کسی نادار کا دکھ
میں نے پھر بصرہ و بغداد کو جلتے دیکھا
میں نہ بھولا تھا ابھی کابل و قندھار کا دکھ
کبھی سیلاب، کبھی موسم بے آب کا ڈر
ہم زمیں دار سمجھتے ہیں زمیں دار کا دکھ
احمد فراز
No comments:
Post a Comment