یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
یہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملاے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ،  ذرا فاصلے سے ملا کرو

ابھی رہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس کسی نے بھلا دیا، اسے بھولنے کی دعا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں، یہ محبتوں کی کہانیاں 
جو کہا نہیں  وہ سنا کرو ، جو سنا نہیں  وہ  کہا کرو

کبھی  حسن   پردہ  نشیں   بھی   ہو  ذرا عاشقانہ   لباس  میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں میرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمی شوق سے، بڑی دیر تک نہ تکا کرو

ڈاکٹر بشیر بدر

No comments:

Post a Comment